پاکستانی فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے کے مطابق دنیا کے بلند ترین محاذ سیاچن پر گذشتہ 30 سالوں میں اب تک پاکستان اور بھارت کے 8000 سے زیادہ فوجی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
ان اہلکاروں میں صرف لگ بھگ 400 افراد ایسے ہیں جو گولی کا شکار ہوئے، باقی سب کو شدید موسم نے مار دیا۔ لیکن سیاچن کی جنگ نہ آپریشن ضرب عضب ہے نہ ہی وہاں دہشت گرد موجود ہیں۔ یہاں تک وہ لائن آف کنٹرول بھی نہیں ہے۔ تو پھر اس طرح کے شدید موسمی اثرات میں دونوں ملکوں نے اپنی افواج کے قیمتی سپاہیوں اور جوانوں کو وہاں کیوں تعینات کر رکھا ہے؟پاکستان میں پہلی بار یہ سوال ، ملک کے فنکارایک تھیئٹر ڈرامے کے ذریعے اٹھا رہے ہیں۔
سیاچن گلیشیئر پر قائم پاکستانی محاذ پر تعینات سپاہیوں کی زندگی پر مبنی اپنی طرز کا ایک انوکھا تھیٹر ڈراما 29 اکتوبر سے اسلام آباد میں پیش کیا جائے گا۔ یہ ڈراما پاکستان کے مشہور ڈراما نگار اور میزبان انور مقصود نے لکھا ہے۔
اسلام آباد میں اس ڈرامے کی تعارفی تقریب میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انور مقصود نے کہا کہ یہ کھیل موجودہ وقت کا تقاضا ہے۔
’ہمارے ہاں جو بھی فلمیں، ڈاکومینٹریز اور ٹیلیویژن نشریات ہیں، ان میں صرف فوجی افسران کا ذکر ہوتا ہے، مگر میدان جنگ میں سپاہی آگے ہوتے ہیں اور فوجی افسران پیچھے، اور میں نے یہ ڈراما اس لیے لکھا کیونکہ سپاہیوں سے میرا رشتہ بہت پرانا ہے۔‘
لیکن انور مقصود کو سپاہیوں کی یہ کہانی لکھنے میں اتنے سال کیوں لگے؟ جواب میں ان کا برجستہ انداز غالب آیا اور وہ بولے: ’اجازت نہیں تھی، آئی ایس پی آر نے اب اجازت دی اور اب لکھ ڈالا۔‘
انور مقصود کا کہنا ہےکہ اگرچہ اس وقت پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کی فضا ہے مگر اس کھیل کو2016 کے ایسے پس منظر میں لکھا گیا ہے جب سیاچن پر دونوں اطراف حالات معمول پر ہیں اوراس کھیل کی بنیادی توجہ پاکستانی سپاہیوں کی سیاچن میں زندگی پر مرکوز کی گئی ہے۔
’اس میں ہندوستان کا ذکر بہت کم ہے ۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست سے میں اتنی ہی دور ہوں جتنی دور ممنون صاحب صدارت سے ہیں۔ مگر جہاں تک شیو سینا کے حالیہ واویلے کی بات ہے تو مجھے لگتا ہے یہ ایک مرحلہ ہے جسے ختم ہونا ہی ہے۔‘
18 افراد کی ٹیم پر مشتمل اس کھیل کے ہدایت کار داور محمود نے بتایا ہے کہ پاکستانی مسلح افواج کے سپاہیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا یہ پہلا موقع ہے اس لیے یہ انتہائی ضروری تھا کہ ڈرامے کی پوری ٹیم سیاچن میں ان سپاہیوں کے ساتھ کچھ وقت گزارے جن کی عکاسی اس ڈرامے میں کی جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ ظاہر ہے کہ ’میتھڈ ایکٹنگ‘ کا یہ طریقہ پاکستانی فوج کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ آئی ایس پی آر کے تعاون سے اس کھیل کی پوری ٹیم کو 120دن تک فوجی تربیت دی گئی تھی جس کے بعد وہ 15 روز تک سیاچن میں ایک اگلو یا برف گھر میں رکھا گیا، جہاں انھیں وردیاں، اسلحہ اور فوجی تربیت دی گئی جس نے ڈرامے کے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کا بھرپور موقع دیا۔
28 سالہ داور محمود پہلے بھی انور مقصود کے تحریر کردہ ڈراموں کو تھیئٹر کا روپ دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کے تھیئٹر ہال میں ایک تھری ڈی سسٹم پہلی بار متعارف کروایا جا رہا ہے جس کے ذریعے اس کھیل کو پیش کیا جائے گا۔ ’ساتھ ہی ہال میں درجہ حرارت انتہائی کم ہو گا اور کوشش کی جائے گی کہ حاضرین کو ڈراما دیکھتے ہوئے موسم کی اس شدت کا احساس ہو جس میں پاکستانی مسلح افواج کے سپاہی اپنی زندگی کے قیمتی سال گزار دیتے ہیں۔‘
داور محمود کے مطابق پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ ملک کی مسلح افواج کے بارے میں سب اچھا ہی لکھا اور کہا جائے لیکن انھیں ایک مختلف تجربہ ہوا۔
’پہلی بار آئی ایس پی آر کے دفتر جاتے ہوئے یہی احساس تنگ کرتا رہا کہ کچھ ایسے لوگوں سے تخلیقی بحث کرنے جا رہا ہوں جن کا دور دور تک اس شعبے سے کوئی تعلق نہیں لیکن مجھے یہ حیرانی ہوئی کہ اس شعبے میں تمام افراد تخلیقی صلاحیتوں، شاعرانہ مزاج اور حساس دل کے مالک ہیں۔‘
اس سٹیج پلے کو آئی ایس پی آر اور پاکستان کی ایک نجی موبائل نیٹ ورک کمپنی کا مالی تعاون بھی حاصل ہے۔ یہ کھیل 29 اکتوبر سے 19 نومبر تک پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اسلام آباد میں پیش کیا جائے گا، جس کے بعد منتظمین اسے کراچی، لاہور، پشاور، ملتان اور فیصل آباد کے علاوہ دبئی اور لندن میں بھی پیش کریں گے۔
0 comments:
Post a Comment